Orhan

Add To collaction

وہ زندگی

ترے جمال حقیقت کی تاب ہی نہ ہوئی
ہزار بار نگہ کی مگر کبھی نہ ہوئی

تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی

کہاں وہ شوخ ملاقات خود سے بھی نہ ہوئی
بس ایک بار ہوئی اور پھر کبھی نہ ہوئی

وہ ہم ہیں اہل محبت کہ جان سے دل سے
بہت بخار اٹھے آنکھ شبنمی نہ ہوئی

ٹھہر ٹھہر دل بے تاب پیار تو کر لوں
اب اس کے بعد ملاقات پھر ہوئی نہ ہوئی

مرے خیال سے بھی آہ مجھ کو بعد رہا
ہزار طرح سے چاہا برابری نہ ہوئی

ہم اپنی رندی و طاعت پہ خاک ناز کریں
قبول حضرت سلطاں ہوئی ہوئی نہ ہوئی

کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں
پھر ایسی چشم توجہ ہوئی ہوئی نہ ہوئی

تمام حرف و حکایت تمام دیدہ و دل
اس اہتمام پہ بھی شرح عاشقی نہ ہوئی

فسردہ خاطرئ عشق اے معاذ اللہ
خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی

تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہونی تھی کچھ کمی نہ ہوئی

کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا
شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی

صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی

وہ کچھ سہی نہ سہی پھر بھی زاہد ناداں
بڑے بڑوں سے محبت میں کافری نہ ہوئی

ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی

گئے تھے ہم بھی جگرؔ جلوہ گاہ جاناں میں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی


جگر مراد آبادی

   1
0 Comments